جیتے جی کوئی ایک روپیہ بھی نہ دیتا تھا
مر گئی تو شہر بھر کو چھٹی دے دی
ڈاکٹر سیدہ رفعت سلطانہ ایک پڑھے لکھے کھاتے پیتے گھرانے سے تھیں۔ لندن اور جرمنی میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی پاکستان میں آ کے ڈاکٹر کی خدمت کے فرائض انجام دئیے۔ محبت میں پڑ گئیں تو ڈاکٹر صاحب سے شادی کر لی۔
زیادہ میں بھی نہیں جانتا بسس جو شہر کے لوگوں سے سناوہ بیان کر رہا ہوں
ڈاکٹر صاحب نے وقت گزرنے کے بعد ایک اور شادی کر لی۔ اور مرحومہ ڈاکٹر سیدہ رفعت سلطانہ کی ساری جائیداد اپنے نام کر لی۔ رفعت بی بی کو کسی چیز کی کمی۔نہ تھی۔ سوائے محبت کے۔
مگر ڈاکٹر صاحب سے انہیں وہ محبت بھی نہ ملی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی دوسری بیوی کو لے کے یورپ میں شفٹ ھو گئے۔ رفعت سلطانہ کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ پھر ایک دن فون پہ رابطہ ہوا یا خط موصول ہوا۔ خدا بہتر جانتا۔ مگر ڈاکٹر سیدہ رفعت سلطانہ کو طلاق مل گئی۔ اور انہیں ایک جملہ کہا گیا کہ میں تمہیں اتنا کنگال کر آیا ہوں کہ اب تم ایک روپے کو بھی ترسو گی۔
بسسسسسسس جب سے ہوش سنبھالی راولپنڈی سے قریب اٹھائیس کلومیٹر دور ایک خوبصورت شہر واہ کینٹ میں رفعت سلطانہ کو بھیک مانگتے دیکھا۔ زندگی کے تقریباََ بیس سال انہیں اپنی آنکھوں سے بھیک مانگتے دیکھا۔ مرحومہ کی ایک ہی صدا ہوتی تھی۔
ایک روپہ دے دیں۔۔ ساتھ ہی دوسری صدا لگتی
پلیز گیو می ون روپی۔۔۔
اگر کوئی پانچ روپے دیتا تو مرحومہ پرس میں سے چار روپے نکال کے واپس کر دیتیں۔ اور بولتیں۔
بسس ایک روپیہ ہی چاھئیے ۔
ملائیشا میں تھا تو خبر ملی کہ ایک روپے والی آنٹی انتقال کر گئی۔۔ بہت دکھ ہوا۔ شہر کے سکولز کو چھٹی دے دی گئی۔۔۔
دکانیں بند کر دی گئیں۔
پروٹوکول ایسا تھا کہ مرحومہ پی او ایف ہوٹل میں بھی
چائے پینے چلی جاتی تھی
تم ایک دل کو لیے بیٹھے ہو
..عشق نسلیں اجاڑ دیتا ہے
..عشق نسلیں اجاڑ دیتا ہے
No comments: